اے عشق شاد کام ہوں تیرے شعور سے
اے عشق شاد کام ہوں تیرے شعور سے
مجھ کو گلہ نہیں ہے کسی کے غرور سے
یہ انتہائے ہوش ہے آگے خبر نہیں
آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو دور سے
قطرے کی کیا بساط پتا بھی نہیں چلا
اک موج اٹھ کے رہ گئی دریائے نور سے
دیتا رہے زمانہ فریب نشاط اب
سر خوش ہیں ہم تو بادۂ غم کے سرور سے
قربان تیری نیم نگاہی کے دیکھ پھر
آتی ہے مجھ کو بوئے محبت غرور سے
اے برق حسن اذن تماشا کبھی ہمیں
موسیٰ نہیں جو لوٹ کے آ جائیں طور سے
یہ حسن یہ شباب یہ معصومیٔ جمال
تم داد لو خدا کی قسم جا کے حور سے
کمبخت اس نے اور بھی مجبور کر دیا
باز آئے ہم الٰہی دل ناصبور سے
فائقؔ مرے مذاق میں بے مائیگی سہی
داد سخن طلب ہوں مگر ذی شعور سے