عدو ہو گیا آدمی آدمی کا

عدو ہو گیا آدمی آدمی کا
عجب دور ہے یہ نئی روشنی کا


الجھتے ہیں نسلی تنافر میں انساں
مٹا کر نہ رکھ دیں یہ نام آدمی کا


بس اک سانس ہے آئے آئے نہ آئے
بھروسا نہیں ہے کوئی زندگی کا


کدورت کو چھوڑو محبت بڑھاؤ
یہ دنیا ہے میلہ گھڑی دو گھڑی کا


فرشتوں سے نسبت مجھے دینے والو
نہیں جانتے تم مقام آدمی کا


غم لا زوال اک عطا کر کے مجھ کو
ادا کر دیا تو نے حق دوستی کا


جو ساقی کی خاطر ہی پی لوں تو پی لوں
نہیں شوق ورنہ مجھے مے کشی کا


بڑی چیز ہے مہر و الفت بھی صابرؔ
اسی میں ہے پوشیدہ گوہر خوشی کا