ادائے رسم محبت خطا سی لگتی ہے

ادائے رسم محبت خطا سی لگتی ہے
ہمیں تو اپنی وفا بھی سزا سی لگتی ہے


سفر میں دھوپ کا احساس تک نہیں ہوتا
ہمارے سر پہ کسی کی دعا سی لگتی ہے


وہ میری فکر کو چھوتا ہے جب خیالوں میں
ہر ایک لفظ میں بوئے حنا سی لگتی ہے


میں اپنے آپ کو پاتا ہوں روبرو اپنے
تمہاری یاد بھی اب آئنہ سی لگتی ہے


یہ سرخ پھول سے چہرے بھی زرد مائل ہیں
نسیم صبح چمن کچھ خفا سی لگتی ہے


مجھے زوال سا لگتا ہے آدمیت کا
جب آدمی کی انا بھی خدا سی لگتی ہے


مجھے تلاش ہے اے دوست ایسے لوگوں کی
کہ تلخ بات بھی جن کو دوا سی لگتی ہے


یہ رنج و غم یہ مصائب تری عنایت ہیں
مری فغاں بھی تری ہی عطا سی لگتی ہے


یہ زندگی تو فسادوں کو سونپ دی ہم نے
یہ رسم و راہ عقیدت فنا سی لگتی ہے


غبار چھایا ہے انوارؔ یوں تعصب کا
فضائے دہر کوئی بد دعا سی لگتی ہے