ابر کی اوٹ سے چھلکا ہے ادھر دھوپ کا رنگ

ابر کی اوٹ سے چھلکا ہے ادھر دھوپ کا رنگ
ہے سکوں بخش بہت وقت سحر دھوپ کا رنگ


وادیاں جھیلیں ہوں پربت ہوں کہ ہوں دشت و دمن
کتنے لگتے ہیں حسیں چمکے اگر دھوپ کا رنگ


انجمن شب کی اٹھی نور سحر آتے ہی
اوڑھنے لگ گئے گلشن میں شجر دھوپ کا رنگ


شب کی تاریکی میں سوئے تھے جو تھک کر طائر
تازہ دم ہو گئے جب آیا نظر دھوپ کا رنگ


وقت زنداں کے اندھیروں میں گزارا جس نے
اس کے حجرے میں کرے کاش گزر دھوپ کا رنگ


نازلیؔ پہن لیا دھرتی نے زردوز لباس
جب افق سے ہوا فردوس نظر دھوپ کا رنگ