اب ادا ہم سے نماز زندگی ہوتی نہیں
اب ادا ہم سے نماز زندگی ہوتی نہیں
دل جلانے سے بھی اب تو روشنی ہوتی نہیں
زندگانی اس قدر بے کیف ہے کچھ ان دنوں
ان کے آ جانے سے بھی اب تو خوشی ہوتی نہیں
تیز ہو جاتی تھی دھڑکن آتے ہی تیرا خیال
نام تیرا سن کے بھی اب سنسنی ہوتی نہیں
حسن پہ مرتی ہے دنیا جس پہ آتا ہے زوال
ہم سے ایسی چند روزہ عاشقی ہوتی نہیں
یوں تو ہو جاتی ہیں پوری دھیرے دھیرے خواہشیں
جس کی ہم کو چاہ ہے بس اک وہی ہوتی نہیں
پیار جس نے جتنا مانگا اس کو اتنا دے دیا
کیا خزانہ ہے کہ اس میں کچھ کمی ہوتی نہیں
ضبط غم کی سرحدوں کو ہم نے حیرتؔ چھو لیا
غم ہوں چاہے کتنے آنکھوں میں نمی ہوتی نہیں