آواز اپنے دل کی ہوں بانگ درا نہیں
آواز اپنے دل کی ہوں بانگ درا نہیں
آئے نہ میرے پاس جو درد آشنا نہیں
غیروں سے بھی نباہ تمہارا نہ ہو سکا
کیا اب بھی یہ کہو گے کہ تم بے وفا نہیں
چہروں پہ اختلاف صداؤں میں انتشار
اس شہر سنگ دل میں کوئی ہم نوا نہیں
یوں گمرہی میں آج ہے ہر شخص مبتلا
جیسے زمانے بھر میں کوئی رہنما نہیں
منزل کدھر ہے اور کدھر راستہ کمالؔ
وہ کیا بتائے جس کو خود اپنا پتا نہیں