آرزو
آج پھر مرے دل کو یہ آرزو ہے
نہ بچھڑے جو مرے روبرو ہے
یہ مجھ سے چاہت کے وعدے جتا رہا ہے
میرا ہے یقیں دل ربا ہے
یہ دل کشمکش میں مبتلا ہے
کہ اس کیفیت سے گزر چکا ہے
یہ چاہت کے دعوے بھی سن چکا ہے
اور بکھرے جذبے بھی چن چکا ہے
اس چاہنے والے کے دل میں میں ہوں
میں اس کا ارماں دل و جگر ہوں
میرے بھی دل کے
ہر ایک گوشے میں یہ بسا ہے
شہر تمنا پہ چھا چکا ہے
دل میں پھر بھی یہی گماں ہے
ہے اور کوئی
کوئی یہاں ہے
کیونکہ
وہی ہے موسم
وہی سما ہے