آپ کہتے ہیں نہیں ملتے دل افسانے میں

آپ کہتے ہیں نہیں ملتے دل افسانے میں
پھر سے ہم آ ہی گئے آپ کے بہلانے میں


وہ برس بیت گیا جس میں تمہیں پایا تھا
عمر گزرے گی اسے بارہا دہرانے میں


پھول پر ایک مہکتی ہوئی تتلی دیکھی
کیا تمہیں چھو لیا اس نے کہیں انجانے میں


شرط موجودگی درکار نہیں الفت کو
وقت ضائع نہ کر آنے میں اور جانے میں


ہر نفس تم ہی ہو ہر سمت تمہارے جلوے
لطف اتنا نہ تھا اے یار تجھے پانے میں


چاند کو جھیل کے پانی میں اتارا لیکن
آگ پانی میں لگا بیٹھے ہیں انجانے میں


عشق پر زور نہیں پھر بھی لگے رہتے ہیں
ہم کبھی خود کو کبھی آپ کو سمجھانے میں