آنکھوں میں ایک دشت ہے کب سے رکا ہوا

آنکھوں میں ایک دشت ہے کب سے رکا ہوا
پہلو میں اک چراغ ہے آدھا جلا ہوا


مدت سے میرے دل میں ہے کوئی بسا ہوا
محرم ہے میری ذات کا گرچہ چھپا ہوا


رکھا ہوا ہے چاند کی دہلیز پر قدم
رستہ ہے روشنی کا سمندر بنا ہوا


پہلی نظر میں عمر کا سودا ہوا تھا طے
سچ بات ہے کہ آنکھ کا وعدہ وفا ہوا


خوشبو کا راز کھول رہا ہے جہان پر
شعروں میں کوئی شخص ہے شاید چھپا ہوا


دشت فنا میں ڈھونڈ لیا اپنی ذات کو
میرا کہیں نہ ہونا ہی میری بقا ہوا


تتلی چمن میں آج بہت چپ لگی مجھے
جیسے کسی گلاب پہ ہو دل رکا ہوا


کہنے لگی ہوں شعر میں نیلمؔ کے ساتھ ساتھ
شوق نوائے دشت مرا ہم نوا ہوا