آنکھ کو منظر منظر رونے والا ہے

آنکھ کو منظر منظر رونے والا ہے
دل کا شیشہ پھر سے ٹوٹنے والا ہے


پہلے چپ کو چپ کے ساتھ عداوت تھی
اب یہ موسم خود سے جھڑنے والا ہے


ایک محبت سے بھی دل گھبراتا ہے
اب تو یہ سناٹا بولنے والا ہے


خوشبو کی آزادی قادر کھلتا ہے
کون ہوا کا دامن کھولنے والا ہے


آنے والی رات پہ ہی موقوف نہیں
ایک دیا تو ہاتھ پہ جلنے والا ہے


دل کی دھڑکن میں آسیب پسندی ہے
کوئی اپنے آپ سے ڈرنے والا ہے