عالم ہو قہر کا تو لبوں پر دعا نہ ہو

عالم ہو قہر کا تو لبوں پر دعا نہ ہو
اس خامشی پہ میں بھی یہ دیکھوں کہ کیا نہ ہو


اب تو ہمارے عہد میں فرعونیت کے بیچ
موسیٰ وہی ہے ہاتھ میں جس کے عصا نہ ہو


بنتے ہیں ضابطے یہاں ہونٹوں پہ قفل کے
پتھر یہ چاہتے ہیں کوئی بے صدا نہ ہو


ایسا نہ ہو کہ خواب بھی جھڑ جائیں نیند سے
موسم یہاں ہو سرد پہ اتنا خفا نہ ہو


گھبرا کے سب اجالوں سے کہنے لگے نویدؔ
ہم تیرگی میں جائیں تو اک بھی دیا نہ ہو