آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا

آگ کے ساتھ ہی پانی بھی بہم رکھنا تھا
دل میں تھا عشق تو آنکھوں کو بھی نم رکھنا تھا


مجھ کو معلوم تھا بدلی ہوئی رت کا انجام
پھر بھی بے تاب امنگوں کا بھرم رکھنا تھا


اب کہاں دل کی طلب عقل سے ہو کچھ امداد
اک ذرا سوچ کے پہلا ہی قدم رکھنا تھا


ان سے امید نہ رکھتا میں وفا کی کیسے
دست الفت میں محبت کا علم رکھنا تھا


شدت عشق میں کرنا تھا اضافہ راغبؔ
اور بیتابئ‌ جذبات کو کم رکھنا تھا