مصنوعی ذہانت اور انسانی روزی

                کیا واقعی  آئندہ  چند برسوں میں مشینیں انسان کی طرح سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پا کر انسانوں کیلیے روزی کمانے کے مواقعے محدود کر دیں گی؟ اگر ایسا ہے تو ہم بطور انسان اپنی بقا کیسے ممکن بنائیں گے؟ نیز وہ کیسا ماحول ہو گا جس میں ہم سوچنے اور سمجھنے والی مشین کے شانہ بشانہ کام کریں گے اور وہ کون سے کام ہونگے جن کی طلب ان مشینوں کی موجودگی میں ہوگی؟

                یہ وہ خوف، خدشات اور سوالات ہیں جس کیلیے دنیا بھر کے انسان آج بے تاب ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی کہانی جو اٹھارویں صدی میں پہلے صنعتی انقلاب کے موقع پر بھاپ اڑاتی فیکٹریوں میں کپڑے اور دیگر مصنوعات کی تیاری سے شروع ہوئی تھی آج  چوتھے صنعتی انقلاب کی آمد پر انسانی اور مشینی دماغ کو آمنے سامنے لا چکی ہے۔  تخیلاتی سائنسی فلموں میں دکھائی  جانے والی خودکار مشینیں، روبوٹس اور مصنوعی ذہانت  رکھنے والے آلات آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔  آج مشینیں خود سے سوچ رہی ہیں، فیصلہ کر رہی ہیں اور اقدام کر رہی ہیں۔   اسی لیے تو انسان خوف زدہ ہو رہا ہے کہ  اگر یہ خصوصیات  مشینوں کو مل گئیں تو انسان کیسے انکا مقابلہ کر پائےگا۔ کیونکہ بحرحال مشینیں انسان سے زیادہ اور بہتر کام کر سکتی ہیں اور انسان کے مقابلے میں ان کے اخراجات بھی کم ہی ہوں گے۔ لہٰذا  سرمایہ دار،  صنعتکار اور دیگر کمپنیوں کے مالکان اس بات کو ترجیح دیں گے کہ وہ انسان کی بجائے مشینوں کو ملازمت دیں اور ان کے ذریعے ہی اپنے سرمائےمیں اضافے کا ایجنڈا پورا کریں۔

                دنیا کے  اقتصادی حالات پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ورلڈ ایکونومک فورم نے 2020 میں مستقبل کی نوکریوں کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی وہ بھی اسی قسم کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ آئندہ پانچ سال کی پیشنگوئی کرتے ہوئے  یہ رپورٹ کہتی ہے کہ 2025 تک  کاروباری جگہوں پر انسانی ملازم اور مشینیں تقریباً برابری کی سطح پر  کام کر رہےہوں گے۔ کاروباری جگہوں پر اس درجہ مشینیں متعارف ہونے کی وجہ سے تقریبا 43 فیصد کاروباری لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے ملازمین میں کمی کریں گے۔ جس وجہ سے خدشہ ہے کہ 2025 تک ساڑے آٹھ کروڑ نوکریاں انسانوں کیلیے دستیاب نہیں رہیں گی۔ جہاں یہ رپورٹ اپنے ان خدشات کا اظہار کرتی ہے وہاں امید بھی دلاتی ہے کہ ربوٹس اور خود کار مشینیں آنے کی وجہ سے ساڑھے نو کروڑ سے زائد نئی قسم کی نوکریاں بھی نکلیں گی۔  ورلڈ ایکونومک فورم کی مستقبل کی نوکریوں کے حوالے سے یہ رپورٹ گو کہ نوکریوں کے ختم ہو جانے یا  نئی قسم کی  نوکریوں کی پیدائش کے بارے میں صرف اندازہ لگا رہی ہے لیکن  اس رپورٹ میں یہ بات  دیکھی جا سکتی ہے کہ چوتھا صنعتی انقلاب جسے روبوٹ کا انقلاب بھی کہا جا رہا ہے پوری طرح اقتصادی ماحول تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ صرف چار سے پانچ سال کے دوران ایسی تبدیلی ہو گی کہ 2025 کا انسان یہ پہچان نہیں سکے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جو 2020 سے پہلے تھی۔ روبوٹ کی عمومی زندگی میں  آمد سے  نہ صرف انسان کا رہن سہن تبدیل ہو گا بلکہ روزی کمانے کے ذرائع بھی بدل کر رہ جائیں گے۔ ورلڈ ایکونومک فورم کی اسی رپورٹ کے مطابق 84 فیصد تک  کاروباری طریقہ کار خود کار ہو چکا ہو گا۔ گھر سے کام کرنے کا ٹرینڈ بڑھے گا اور صبح سویرے اٹھ کر دفتر پہنچنے کا تصور مزید مدھم  ہوگا۔ رپورٹ صریحاً  اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کو اس تیز رفتار تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلیے تیزی سے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا اور نئے  ہنر سیکھنے ہونگے۔ سوشل میڈیا کو سنبھالنا، نئے مواد کی تیاری یعنی کونٹینٹ کریئشن اور مصنوعی ذہانت وہ شعبہ جات ہونگے جہاں روزگار کے مواقع بہت تیزی سے بڑھیں گے۔ ان شعبہ جات میں کھپت کیلیے تجزیہ کرنے کی صلاحیت، تخلیق کرنے کی صلاحیت، معامالت حل کرنے کی صلاحیت نئے راستے تجویز کرنے کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر ذاتی شوق سے  نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت ایسے ہنر ہونگے جن  کی مانگ بہت زیادہ ہوگی۔

                دنیا میں اس تیز انقلاب کے نتیجے میں جہاں  تیزی سے کام کرنے کے ماحول اور ذریعوں میں تبدیلی کی نشاندہی ہو رہی ہے وہیں کاروباری سربرہان کی طرف سے اپنے ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیتوں کے متاثر ہونے کے خدشات کا ذکر بھی ہو رہا ہے۔ 78 فیصد کاروباری لیڈران  کو خدشہ ہے کہ انکے ملازمین بدلتے حالات میں اپنی صلاحیتوں میں اس طرح اضافہ نہیں کر پائیں گے جیسا کہ ضرورت  ہے۔  اس کیلیے حکومتوں اور دیگر عوامی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ایسے مواقع پیدا کرنے ہونگے کہ ملازمین اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکیں اور نئے ہنر سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں اور عوامی اداروں کو ان لوگوں کا بھی سوچنا ہوگا جو بدلتے حالات کی تیزی سے اپنے آپ کو ڈھال نہ سکیؔں گے ۔ کیونکہ کئی  لوگ ایسے ہیں جو آج کے حالات میں تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن جیسے ہی انکے کام کی جگہ ایک روبوٹ  لے گا اور انہیں اپنی روزی کمانے کیلیے نئی صلاحیتوں کو سیکھنے کی ضرورت پڑے گی تو ممکن ہے کہ ان کی ذہنی استطاعت اس بات کی اجازت نہ دے کہ وہ نئی صلاحیت سیکھ پائیں۔ اس بنا پر انہیں ہو سکتا ہے کہ بے روزگاری کا سامنا ہو اور  وہ کئی ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہو جائیں۔  لہٰذا ان بدلتے حالات میں حکومتوں اور دیگر عوامی اداروں کو ان لوگوں کی فلاح کا سوچنا ہوگا، کیونکہ سرمایہ دار تو ایسے کسی الجھن میں پڑنے کیلیے تیار نہیں۔ وہ تو بد مست ہاتھی کی طرح  بس حالات کی رو میں بہے جا رہے ہیں  ۔

                سرمایہ دار کا یہ مزاج صرف آج سے نہیں ہے بلکہ آج سے اڑھائی صدی قبل جب پہلا صنعتی انقلاب آیا تھا تو اسنے بھی اسی قسم کی خود غرضی کا ثبوت دیا تھا۔ ایک عام آدمی جو  اس دنیا کی بیشتر آبادی ہے کیا چاہتا ہے، اسکی کیا خواہشات ہیں، اسکی بھلائی کس چیز میں ہے، وہ کیسی زندگی بسر کرنا چاہتا ہے، بدلتے حالات کا اس پر کیا اثر ہو گا، سرمایہ دارانہ دنیا میں  ان جوابات کی تلاش کی گنجائش مشکل سے ہی رہی ہے۔  گو کہ بنیادی حقوق، آزادی، ہر ایک کی رائے کا احترام جیسے نعرے بے حد مقبول ہیں لیکن زور اسی بات پر ہی رہا ہے کہ عام آدمی سرمایہ دار کی بنائی دنیا کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اسکا نام ہی ترقی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ دقیانوس ہے اور پرانے خیالات کا حامل ہے۔ اس کی اس بدلتی دنیا میں کوئی ضرورت نہیں۔  اسے ہر حال میں  حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہی ہو گا ۔  دنیا کہ یہ وتیرہ پہلے صنعتی انقلاب کے موقعے پر بھی یہی رہا ۔ یہی رویہ دوسرے صنعتی انقلاب کے موقعے پر بھی تھا، جب سائنسی ایجادات پر سرمایہ لگا کر سرمایہ کمانے کا دور دورہ ہوا۔ یہی تیور دنیا کے اس وقت بھی رہے، جب کمپیوٹر کی آمد ہوئی اور بہت سے کاروباری  کام اسی سے لیے جانے لگے۔ اور یہ رویہ آج بھی ہے جب  چوتھا صنعتی انقلاب مشینی دماغ کو انسانی دماغ سے چیلنج کر رہا ہے۔ لہٰذا ایک عام آدمی کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں میں ہر قیمت اضافہ کرے۔ ورنہ  جیسا کہ اس رپورٹ میں خدشے کا اظہار کیا گیا، اسکی نوکری ان ساڑھے آٹھ کروڑ میں ایک ہو گی  جو 2025 تک نہیں رہیں گی۔   اس آرٹیکل کے اختتام پر وہ لنک دیا گیا   ہے جہاں  ورلڈ ایکونومک فورم کی ایم ڈی نے ان صلاحیتوں کی تفصیل دی ہے جن کی اس نئی دنیا میں ضرورت ہے۔

https://www.imf.org/external/pubs/ft/fandd/2020/12/pdf/WEF-future-of-jobs-report-2020-zahidi.pdf