پاکستانی قوم یا امت مسلمہ کا ہراول دستہ : فیصلہ کیجیے

دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان خواہ کسی رنگ و نسل اور قبیلے یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، ایک عالمگیر امت کے افراد ہیں اوران کی قوت اورطاقت کا راز وحدت اسلامی میں پوشیدہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں  میں اخوت اسلامی کا  یہ رشتہ وحدت توحید اور وحدت انسانیت سے استوار ہے۔قران کریم اور سنت نبویﷺ نے مسلمانوں کی امت کو یکجا کرنا لازم قرار دیا جیسے کہ امت ایک ہی جسم ہو اور اسکے افراد اسکے عضو کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا بدن یہ محسوس کرے۔ یا بالفاظ دیگر ایک سیسہ پلائی دیوار جس کی ایک حصہ دوسرے کی تقویت اور مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔ باہمی اخوت، عالمگیر انسانیت ، امن اور خیر خواہی کے جذبات کی حامل اس امت کو ہی امت وسط اور خیر امت کے القابات عطا فرمائے گئے ہیں  اور اسی  کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصب پر سرفراز فرماتے ہوئے  امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی لازم کردی گئی ہے۔

اسلام کا یہ تصور امت  جدید مغربی تصور قومیت کی ضد ہے۔ مغرب میں رنگ ونسل، وطن اور جغرافیائی حدود کو قومیت کے تصور سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یعنی ایک وطن میں رہنے والے ، ایک نسل سے تعلق رکھنے والے یا ایک زبان بولنے والے افراد کو ایک قوم تصور کیا جاتا ہے جبکہ اسلام کے نزدیک یہ تمام حیثیتیں ثانوی ہیں اور دراصل ایک قوم ایک طرح کے مقاصد حیات، ایک طرح کے فکر و نظراور  ایک طرح کے خیالات و نظریات سے وجود میں آتی ہے۔

 دشمن مسلمانوں کی اس قوت کو سمجھتا ہے اس لیے اس نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کئی طرح سے کی ہے۔ کہیں فرقہ واریت کو فروغ دیاجاتاہے  اورکہیں عرب و عجم کی لڑائی  ہے۔  اس کے نتیجہ میں امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہے ، مسلمان کمزور اور اسلام دشمن قوتیں طاقت ور  ہیں۔ امت مسلمہ اگر عظمت رفتہ کی بحالی چاہتی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا  چاہتی ہے   تو اسے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے شخصی ،گروہی ،لسانی اور مسلکی اختلافات کو بھلا کر  وحدت کی لڑی میں خود کو پرونا ہو گا۔ بقول اقبال:

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی، نہ   ایرانی   نہ   افغانی

 

قرآن کریم اور امت مسلمہ کا تصور:

اسلامی  تعلیمات کا منبع اول مسلمان جس  سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے وہ قرآن ہے۔  قرآن وحدت امت کا مصدر اول قرار پاتاہے جس نے تمام مسلمانوں کو ایک امت قرار دیاہے:

اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْن ۔(الانبیاء ۲۱:۹۲)
’’یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، لہٰذا تم میری عبادت کرو۔‘‘

صرف ایک امت قرار دینے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ امت مسلمہ کو سب سے بہترین امت قرار دیتا ہے
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اُتارا گیا ہے۔‘‘

 

 

امت مسلمہ کا تصور اور اقبال:

 امت مسلمہ کا تصور مقامی کے بجائے عالمگیر تصور ہے جس کا مرکزی نقطہ انفرادیت کو اجتماعیت میں ضم کرنا ہے۔ حضرت اقبال نے جب یورپی قومیت کا پورے طریقے سے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وطنی اور جغرافیائی حدود میں مقید قومیت ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے غیر منطقی نظام ہے۔ یورپ میں انہوں نے اس کے عملی نتائج دیکھے تو انہیں یہ خدشہ ہوا کہ یہ جذبہ اسلامی ممالک کے لئے نہایت خطرناک ہے۔اقبال طویل مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ وطنیت، وحدتِ ملت کے راستے کا پتھر ہے۔ لہٰذا آپ نے تصورِ قومیت (Concept of Nationality) کے مفاسد، قبائح، عواقب واضح کئے اور تصور ملت واضح کیا۔ حرفِ اقبال، نثر اقبال میں رقم ہے کہ خود حضرت اقبال فرماتے ہیں:

’’میں یورپ کے پیش کردہ نیشنلزم کا مخالف ہوں۔ اس لئے کہ مجھے اس تحریک میں مادیت اور الحاد کے جراثیم نظر آتے ہیں اور یہ جراثیم میرے نزدیک دور حاضر کی انسانیت کے لئے شدید ترین خطرات کا سر چشمہ ہیں۔ اگرچہ وطن سے محبت ایک فطری امر ہے لیکن اس عارضی وابستگی کو خدا اور مذہب سے برتر قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ 

آپ نے تصورِ قومیتِ اسلامیہ کو خوب اجاگر کیا اور ہر حیلے، حملے کے تار و پور بکھیر دیے،بالخصوص قومیت کے مغربی تصور یعنی وطن میں محدود قومیت کے تصور پر بڑی سخت تنقید کی۔ فرماتے ہیں:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے ، مذہب کا کفن ہے

کہیں وطنیت کے اس  باطل بت کو ضربِ اسلام سے یوں خاک پیوند کیا:

ماکہ از قید وطن بیگانہ ایم

چوں نگہ نور و چشمیم و یکیم

’’ہم مشرق و مغرب میں رہنے والے کلمہ گو وطن کی زنجیر سے آزاد ہیں۔ ہم ایک چہرے کی آنکھیں ہیں، ایک نور و ایک روشنی ہیں‘‘۔

عشق در جان و نسب در پیکر است

رشتۂ عشق از نسب محکم تر است

’’اگر بنائے ملت نسب پہ رکھیں تو تصور اخوت پارہ پارہ ہوجائے گا۔ عشق سرکار دو عالم ﷺ، راحت کون و مکاں اگر جان و جسم، نسل و نسب کے پیکر میں نہ ڈھلے توچہ مسلمانی؟‘‘

حرف اقبال صفحہ نمبر 222، حضرت اقبال فرماتے ہیں:’’جو کچھ قرآن حکیم  کے مطالعہ سے جو کچھ میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کےقومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔‘‘

حضرت حکیم الامت کے نزدیک مقصدِ تخلیقِ انسان، نظام اجتماعیت کا قیام ہے  اور اجتماعیت کا نظام صرف اور صرف دامن اسلام سے حاصل ہوتا ہے۔