سنت کی آئینی حیثیت: ایک ایسی معرکۃ الآرا کتاب جس نے پاکستان میں ہمیشہ کے لیے سنت رسول کا مقام طے کردیا

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے علمی کارناموں کی فہرست یوں تو خاصی طویل ہے لیکن اگر ان کی چند اہم کاوشوں اور کامیابیوں کا تذکرہ کیا جائے تو ان میں یقیناً ان کی کتاب ،’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کا ذکر ضرور ہوگا جو محض ایک کتاب نہیں،بلکہ تاریخ ہے ایک طویل جدوجہد کی جس کا نتیجہ  ایک طرف سنت  رسول  اور اسلامی ذخیرہ احادیث پر معترض طبقہ کی مستقل خاموشی کی صورت میں برآمد ہوا اور دوسری طرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں سنت کی تشریعی و قانونی حیثیت بعد کتاب اللہ ہمیشہ کے لیے دوسرے مستند و مامون ماخذ کی طے ہوگئی۔

کتاب کی بلند درجہ علمی حیثیت کا ادراک تو قاری کو اس کے مطالعہ سے ہی ہوسکتا ہے لیکن ذیل میں ہم چند ایسے اقتباسات درج کررہے ہیں جو اس کے مرکزی موضوع کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں۔ آئیے ان اقتباسات کا مطالعہ کرتےہیں، پہلا اقتباس انکار حدیث و سنت کے علمبرداروں کے سامنے ایک تاریخی دلیل رکھتا ہے:

’’امت کا اجتماعی ضمیر، جو کسی طرح یہ بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان کبھی رسولؐ کی اطاعت و پیروی سے آزاد بھی ہو سکتا ہے۔  چند سرپھرے انسان تو ہر زمانے میں اور ہر قوم میں ایسے نکلتے ہیں جو بے تکی باتوں ہی میں وزن محسوس کرتے ہوں مگر پوری امت کا سرپھرا ہو جانا بہت مشکل ہے۔ عام مسلمانوں کے ذہنی سانچے میں یہ غیر معقول بات کبھی ٹھیک نہ بیٹھ سکی کہ آدمی رسولؐ کی رسالت پر ایمان بھی لائے اور پھر اس کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار بھی پھینکے۔ ایک سیدھا سادا مسلمان جس کے دماغ میں ٹیڑھ نہ ہو، عملاً نافرمانی کا مرتکب تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ عقیدہ اختیار کبھی نہیں کر سکتا کہ جس رسول پر وہ ایمان لایا ہے اس کی اطاعت کا وہ سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔ مسلمان قوم کا مزاج اتنی بڑی بدعت کو ہضم کرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ ہو سکا کہ اس پورے نظامِ زندگی کو، اس کے تمام قاعدوں اور ضابطوں اور اداروں سمیت، رد کر دیا جائے جو رسول اللہ ﷺ  کے عہد سے شروع ہو کر خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور فقہائے امت کی رہنمائی میں مسلسل ایک ہموار طریقے سے ارتقاء کرتا چلا آ رہا تھا اور اسے چھوڑ کر آئے دن ایک نیا نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں بنوایا جائے جو دنیا کے ہر فلسفے اور ہر تخیل سے متاثر ہو کر اسلام کا ایک جدید ایڈیشن نکالنا چاہتے ہوں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ قرآ ن کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں سنت رسولﷺ کو بھی حجت اور ماخذ قانون تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اور ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے قول و عمل  سے بھی اسی طرح احکامات اخذ   کیے جاتے رہے ہیں جس طرح کہ خود قرآن کریم سے۔ عام مسلمان کے نزدیک تو نبی ؐ کا ہر ہر فعل عین اسلام اور ہمارے لیے  لائق اتباع اور باعث نجات ہے ہی ، اس امت کے علما اور صلحا نے بھی ہمیشہ اسے بنیاد بنا کر فتاویٰ بھی دیے ہیں اور عدالتوں میں فیصلے بھی کیے ہیں۔

نبی اکرمﷺ کی حیثیت بحیثیت شارع کتاب اللہ اور ماخذ قانون اسلامی مسلم ہے، اس پرمصنف کتاب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے الفاظ میں:

’’آپ اگر واقعی قرآن کو مانتے ہیں اور اس کتاب مقدس کا نام لے کر خود اپنے من گھڑت نظریات کے معتقد بنے ہوئے نہیں ہیں تو دیکھ لیجیے کہ قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول ﷺ  کو خدا کی طرف سے مقرر کیا ہوا معلم، مربی، پیشوا، رہنما، شارحِ کلام اللہ، شارع (Law Giver)، قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دے رہا ہے۔ اور حضور ﷺ  کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رو سے منصبِ رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ کلام الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بنا پر صحابہ کرام ؓکے دور سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورۂ بالا تمام حیثیات میں حضورﷺ نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون (Source of Law) ہے جب تک کوئی شخص انتہائی برخود غلط نہ ہو، وہ اس پندار میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ تمام دنیا کے مسلمان اور ہر زمانے کے سارے مسلمان قرآن پاک کی ان آیات کو سمجھنے میں غلطی کر گئے ہیں اور ٹھیک مطلب بس اس نے سمجھا ہے کہ حضور ﷺ صرف قرآن پڑھ کر سنا دینے کی حد تک رسول ﷺ  تھے۔ اور اس کے بعد آپ کی حیثیت ایک عام مسلمان کی تھی۔ آخر اس کے ہاتھ وہ کون سی نرالی لغت آگئی ہے جس کی مدد سے قرآن کے الفاظ کا وہ مطلب اس نے سمجھا جو پوری امت کی سمجھ میں کبھی نہ آیا؟

حدیث و سنت دراصل قرآنی احکامات سے الگ شے نہیں بلکہ ان ہی کی تشریح و توضیح کرتی ہیں۔ سید مودودیؒ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

دنیا بھر میں یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اعلیٰ جس کو حاصل ہو وہ اگر ایک مجمل حکم دے کر یا ایک عمل کا حکم دے کر، یا ایک اصول طے کرکے اپنے ماتحت کسی شخص یا ادارے کو اس کی تفصیلات کے بارے میں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے اختیارات تفویض کردے تو اس کے مرتب کردہ قواعد و ضوابط قانون سے الگ کوئی چز نہیں ہوتے بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ قانون ساز کا اپنا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس عمل کا حکم بھی میں نے دیا ہے، ذیلی قواعد  بنا کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ مقرر کر دیا جاۓ، جو اصول اس نے طے کیا ہے اس کی مطابق مفصل قوانین بنائے جائیں اور جو مجمل ہدایت اس نے دی ہے اس کے منشا کو تفصیلی شکل میں واضح کردیا جائے۔ اسی غرض کے لیے وہ خود اپنے ماتحت شخص یا اشخاص یا اداروں کو قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا مجاز کرتا ہے۔یہ ذیلی قواعد بلاشبہ اصل ابتدائی قانون کے ساتھ مل کر اس کی تشکیل و تکمیل کرتے ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون ساز نے غلطی سے ناقص قانون بنایا تھا اور کسی دوسرے نے آکر اس کا نقص دور کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قانون ساز نے اپنے قانون کا بنیادی حصہ خود بیان کیا اور تفصیلی حصہ اپنے مقرر کیے ہوۓ ایک شخص یا ادارے کے ذریعے سے مرتب کرا دیا۔‘‘

مزید لکھتےہیں:

 اللہ تعالیٰ نے اپنی قانون سازی میں یہی قاعدہ استعمال فرمایا ہے۔ اس نے قرآن میں مجمل احکام اور ہدایات دے کر، یا کچھ اصول بیان کرکے، یا اپنی پسندو ناپسند کا اظہار کرکے یہ کام اپنے رسول ﷺ کے سپرد کیا کہ وہ نہ صرف لفظی طور پر اس قانون کی تفصیلی شکل مرتب کریں بلکہ عملاً اسے برت کر اور اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھادیں۔ یہ تفویضِ اختیارات کا فرمان خود قانون کے متن (یعنی قرآن مجید) میں موجود ہے۔

"اور (اے نبی) ہم نے یہ ذکر تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کردو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔(النمل:44)

اس صریح فرمانِ تفویض کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ ﷺ  کا قولی اور عملی بیان، قرآن کے قانون سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہ درحقیقت قرآن ہی کی رو سے اس کے قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کو چیلنج کرنے کے معنی خود قرآن کو اور خدا کے پروانۂ تفویض جو چیلنج کرنے کے ہیں۔‘‘

اسی علمی و تحقیقی انداز میں مولانا مودودی ؒ نے رسول اللہﷺ کے  تشریعی کام کی چند لاجواب مثالیں اس کتاب میں پیش کی ہیں، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

                    نبی اکرمؐ کی حیثیت قرآن کے شارع  اور اس کے منشا کو تفصیل سے بیان کرنے، واضح کرنے اور ان کو نافذ کرنے والے کی ہے۔ ذیل میں چند ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اجمالاً احکامات دیے جبکہ نبی کریمﷺ نے ان احکامات کو کھول کر مسلمانوں کے سامنے بیان کیا اور اس وضاحت و تفصیل سے ہی ان کی عملی شکل مسلمانوں کے سامنے آئی:

  • قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ واللہ یحب المطھرین (التوبہ:10) اور نبی ﷺ  کو ہدایت کی کہ اپنے لباس کو پاک رکھیں۔ وثیابک فطھر (المدثر:4) حضور ﷺ نے اس منشا پر عمل درآمد کے لیے استنجا اور طہارتِ جسم و لباس کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور ان پر خود عمل کرکے بتایا۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر تم کو جنابت لاحق ہوگئی تو پاک ہوۓبغیر نماز نہ پڑھو (النساء:43، المائدہ:6)۔ نبی ﷺ  نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ جنابت سے کیا مراد ہے۔ اس کا اطلاق کن حالتوں پر ہوتا ہے اور کن حالتوں پر نہیں ہوتا اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو، سر پر مسح کرو اور پاؤں دھوؤ، یا ان پر مسح کرو (المائدہ:6) نبی ﷺ  نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان سر کا ایک حصہ ہیں اور سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہئیے۔ پاؤں میں موزے ہوں تو مسح کیا جائے اور موزے نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہیے۔ اس کے ساتھ آپ نے تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وضو کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ رکھنے والا رات کو اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک فجر کے وقت کالا تاگا سفید تاگے سے ممیز نہ ہوجائے۔ نبی ﷺ  نے بتایا کہ اس سے مراد تاریکیِٔ شب کے مقابلہ میں سپید ۂ صبح کا نمایاں ہونا ہے۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اشیاء کے حرام اور بعض کے حلال ہونے کی تصریح کرنے کے بعد باقی اشیاء کے متعلق یہ عام ہدایت فرمائی کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں (المائدہ:4) نبی ﷺ  نے اپنے قول اور عمل سے اس کی تفصیل بتائی کہ پاک چیزیں کیا ہیں جنہیں ہم کھاسکتے ہیں اور ناپاک چیزیں کون سی ہیں جن سے ہم کو بچنا چاہیے۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہو اور ایک لڑکی ہوتو وہ نصف ترکہ پائے گی اور ……زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکے کا دوتہائی حصہ ملے گا (النساء:11)۔ اس میں یہ بات واضح نہ تھی کہ اگر دولڑکیاں ہوں تو وہ کتنا حصہ پائیں گی۔ نبی ﷺ  نے توضیح فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا مقرر کیا گیا ہے۔
  • قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا (النساء:23)۔ نبی ﷺ  نے بتایا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔
  • قرآن مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح کرلیں (النساء:3) یہ الفاظ اس معاملہ میں قطعاً واضح نہیں ہیں کہ ایک مرد بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ حکم کے اس منشاء کی وضاحت نبی ﷺ  نے فرمائی اور جن لوگوں کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں تھیں ان کو آپ نے حکم دیا کہ زائد بیویوں کو طلاق دے دیں۔
  • قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے آیا ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیے یا عمر میں ایک بار کافی ہے، یا ایک سے زیادہ مرتبہ جانا چاہیے (آل عمران:97)۔ یہ نبی ﷺ  ہی کی تشریح ہے جس سے ہم کو معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کرکے آدمی فریضۂ حج سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔
  • قرآن سونے اور چاندی کے جمع کرنے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت 34 کے الفاظ ملاحظہ فرمالیجئے۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ آپ روز مرہ کے خرچ سے زائد پیسہ بھی اپنے پاس رکھ سکیں، یا آپ کے گھر کی خواتین کے پاس سونے یا چاندی کا ایک تار بھی زیور کے طور پر رہ سکے۔ یہ نبی ﷺ  ہی ہیں جنہوں نے بتایا کہ سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ سونا چاندی رکھنے والا آدمی اگر اس پر ڈھائی فی صدی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کردے تو وہ قرآن مجید کی اس وعید کا مستحق نہیں رہتا۔
  • ان چند مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی ﷺ  نے اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ تشریعی اختیارات کو استعمال کرکے قرآن کے احکام و ہدایات اور اشارات و مضمرات کی کس طرح شرح و تفسیر فرمائی ہے۔ یہ چیز چونکہ خود قرآن میں دئیے ہوئے فرمانِ تفویض پر مبنی تھی اس لیے یہ قرآن سے الگ کوئی مستقل بالذات نہیں ہے بلکہ قرآن کے قانون ہی کا ایک حصہ ہے۔ (سنت کی آئینی حیثیت از سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے ناموس کی حفاظت کےساتھ ساتھ ان کے سنت کی اتباع پر لوگوں کو بلانے اور قائم رہنے کے ایک منادی کا کام بھی لیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔