قاتل روبوٹس

قاتل روبوٹس


اس وقت تین عالمی عسکری قوتوں، امریکہ، روس اور چین کے درمیان ایک دوجے پر عسکری سبقت لے جانے کا جنون سوار ہے۔ اس کیلیے ایسے روبوٹ تیار کیے جا  رہے ہیں جو جنگ کے میدانوں میں انسانی فوجیوں سے تبدیل کیے جا سکیں۔ اس اقدام سے یہ عسکری قوتیں جنگ کے دوران اپنے جانی نقصان کو کم سے کم اور دشمن کے جانی نقصان  کو زیادہ سے زیادہ  کرنا چاہتی ہیں۔ ان روبوٹس کی تیاری میں سب سے آگے چین ہے جو کئی قسم کے روبوٹ تیار کر کے اپنی فوج جسے پیپلز لبریشن آرمی بھی کہتے ہیں کے حوالے کر چکا۔ ان میں سے کئی  روبوٹس ایسے ہیں جو نیم خود مختار ہیں، یعنی انہیں صرف دشمن کا بتا دیا جاتا ہے اور پھر وہ خود تمام رکاوٹیں عبور  کرکے اپنے دشمن کو ختم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اسی سال جولائی 2021میں  چین میں ایک نمائش ہوئی جس میں کئی ایسے روبو ٹ  نمائش کیلیے پیش کیے گئے  جو فذائی، بری اور بحری تینوں جنگوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس نمائش میں پاتھ بریکر کے نام سے ایک ربوٹک گاڑی دکھائی گئی جو بغیر ڈرائیور کے دور سے کنٹرول کر کے  زیادہ سے زیادہ تیس کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے دشوار گزار راستوں پر  نہ صرف جاسوسی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ  دشمن کو میزائل مار کر تباہ کرنے کی اہلیت بھی رکھتی ہے۔  دشمن کا  سراغ بتا دیا جائےتو یہ خود بخود تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے دشمن کو ختم کر کے واپس آنے کی اہلیت رکھتی ہے۔  اسی طرح ایک اور اہم روبوٹ  بھی اس نمائش میں دکھایا گیا۔ اس روبوٹ کا نام روبو شارک ہے اور یہ سمندر کے اندر رہتے ہوئے نا صرف جاسوسی کر سکتا ہے بلکہ لمبے عرصے تک پانی میں رہتے ہوئے دشمن کے خلاف کاروائی میں بھی مدد دے سکتا ہے۔

چائنہ کے ساتھ ساتھ روس بھی اپنی روبوٹس کی آرمی تیار کر رہا ہے۔ روس کا خیال ہے کہ وہ مستقبل میں انسانوں کی جگہ ربوٹس کو فوجیوں کی جگہ شامل کرے گا اور ان کے پورے پورے یونٹس ہونگے۔ روس نے ابھی تک کئی ایسے روبوٹس تیار کر کے اپنے مختلف عسکری یونٹس کے حوالے کیے ہیں جو دشمن کو تباہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کو روس شام کی مہم جوئی   میں آزما بھی  رہا ہے۔ جیسا کہ  یورن 9  ربوٹک گاڑی جو  بغیر انسانی ڈرائیور کے ٹینک  کے طور پر کردار ادا کر سکتی ہے۔

            اب جب روس اور چین  تیزی سے ربوٹس کو اپنی فوج میں شامل کر رہیں ہیں تو کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکہ اس سب میں پیچھے رہے۔ وہ بھی ایسے ربوٹس تیار کر   رہا ہے جو فضائی، زمینی اور بحری تینوں جنگوں میں مدد دے سکیں  اور انہیں  انسانوں کی جگہ استعمال کیا جا سکے۔ لیکن  اس سب دوڑ میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ تینوں ممالک قاتل روبوٹس یا کلر روبوٹس تیار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

            قاتل روبوٹ یا کلر روبوٹ ایک ایسا روبوٹ ہے جو  بغیر کسی انسان کے کنٹرول کے، خود مختار طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کم از کم اب تک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایسا روبوٹ تیار تو نہیں کیا جا سکا لیکن تیزی سے کوشش جاری ہے کہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ایسا خود مختار روبوٹ تیار کر لیا جائے۔ ایسا کرنا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے اس کا انداذہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ  جب اپنے دشمن کو مارنے کیلیے آئیں گے تو اس وقت تک کوئی ایسی چیز نہیں جو ان کو روک سکے۔ ان کو صرف ایک بار دشمن کی نشاندہی کر دی جائے تو یہ اسے  ختم کر کے ہی دم لیں گے۔  ان کے اسی خطرے کے باعث دنیا میں بہت سے ماہرین اور اقوام متحدہ کی مصنوعی ذہانت  والے ہتھیاروں کے خلاف کام کرنے والی کمیٹی ان کی تیاری پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ اگر ان پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی تو کم از کم  ایسی قانون سازی کی جائے جس کے تحت یہ یقین دہانی ہو کہ کوئی ایسا روبوٹ تیار نہیں کیا جائے گا  جو پوری طرح خود مختار  ہو اور  حملہ کرنے کا فیصلہ خود کر سکے۔   حملہ کرنے کا فیصلہ باہر حال  خود انسانوں کے پاس ہونا چاہیے اور ایسا کنٹرول سسٹم ہونا چاہیے جس کے ذریعے روبوٹ کو روکا جا سکے۔ ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اگر روبوٹ خود مختار ہوا تو اسے کسی کو قتل کرنے میں نہ تو کسی قسم کی ہچکچاہٹ ہو گی اور نہ ہی کسی قسم  کی شرمندگی۔  وہ لمحہ بھر میں سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی اہلیت رکھے گا۔ پر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ان روبوٹس کی تیاری کی طرف رفتار بہت تیز ہے جبکہ قانون سازی کی رفتار بہت سست۔ اگر یہ قانون سازی نہ ہو سکی تو اس بات کو ذہین نشین رہنا چاہیے کہ یہ مستقبل میں ایک حقیقت ہونگے اور ذرا ذرا سی چپکلش پر ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو رہے ہونگے، بالکل ڈرونز کی طرح، جن کے بارے میں آج سے پندرہ بیس سال پہلے  بحث تھی کہ کیا ان کو جنگ میں استعمال ہونا چاہیے یا نہیں۔ لیکن ہم نے   اب آرمینیا اور آزر بائیجان کی جنگ میں دیکھا کہ کیسے انہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ نہ صرف اس جنگ میں بلکہ متعدد دوسری جھڑپوں میں ان ڈرونز کی کاروائیاں دیکھنے کو سرعام ملیں۔

حوالہ جات:

https://breakingdefense.com/2021/04/inside-russias-robot-army-rhetoric-vs-reality/

https://www.globaltimes.cn/page/202107/1227901.shtml

https://www.globaltimes.cn/content/1185595.shtml