زنہار اس کی پھر کوئی قیمت نہیں رہی

زنہار اس کی پھر کوئی قیمت نہیں رہی
جس دل میں تیرے غم کی امانت نہیں رہی


شاید کسی نے مجھ کو فراموش کر دیا
اگلی سی اب فراق میں لذت نہیں رہی


یا اب نگاہ ناز میں وہ گرمیاں نہیں
یا دل کو اضطراب کی عادت نہیں رہی


وہ زندگی عبث ہے نہ ہو جس میں سوز و ساز
اس دل پہ حیف جس میں محبت نہیں رہی


کچھ یوں مٹا رہی ہے مجھے گردش فلک
دنیا کو جیسے میری ضرورت نہیں رہی


ہر لمحہ ان کی یاد رہی مونس حیات
ہر چند ان کو مجھ سے محبت نہیں رہی


طالبؔ پہ اب کسی کی نگاہ کرم نہیں
شاید متاع عشق کی قیمت نہیں رہی