اس طرح جی رہا ہوں ترے آستاں سے دور

اس طرح جی رہا ہوں ترے آستاں سے دور
جیسے ہو عندلیب گل و گلستاں سے دور


کس طرح جی رہے ہیں قفس میں نہ پوچھیے
دل آشیانہ میں ہے نظر آشیاں سے دور


شعلوں سے کھیلنے کا سلیقہ نہ ہو جنہیں
وہ آشیاں بنائیں کہیں گلستاں سے دور


گم کردہ راہ بن گئے جب میر کارواں
جو راہ بر تھے رہنے لگے کارواں سے دور


رہتا زمانہ تیری حقیقت سے بے خبر
رہتی مری جبیں جو ترے آستاں سے دور


اے ہم نشیں ہزار کشادہ زمیں سہی
جائیں بھی ہم تو جائیں کہاں آسماں سے دور


اک مہرباں ملے تھے بہت دن کی بات ہے
رہنے لگا ہوں جب سے ہر اک مہرباں سے دور


خاشاک آشیاں میں بھی ہیں بجلیاں نہاں
اے برق بے قرار ذرا آشیاں سے دور


پھولوں کو ہاتھ بھی نہ لگا پائے عمر بھر
ہم گلستاں میں رہ کے رہے گلستاں سے دور


طالبؔ انہیں کے دم سے ہے توقیر زندگی
رکھتے ہیں اپنے سر کو جو ہر آستاں سے دور