حقیقت اپنی بس اتنی ہی جانتا ہوں میں
حقیقت اپنی بس اتنی ہی جانتا ہوں میں
جو طے ہوا نہ کسی سے وہ مرحلا ہوں میں
فگار قلب و جگر ہیں تو خوں چکاں آنکھیں
ہوا یہ حال مگر پھر بھی بے وفا ہوں میں
نہ کر مغنئ ناداں فضول زخمہ زنی
شکستہ ساز ہوں فریاد بے صدا ہوں میں
عطا وہ ہوش ربا مے ہو چشم مے گوں سے
کوئی یہ کہہ نہ سکے پھر کہ پارسا ہوں میں
یہ خون دل سے چمن سینچنے کا اجر ملا
نگاہ اہل چمن میں کھٹک رہا ہوں میں
حسین خواب دکھا کر فریب لطف نہ دے
حسین خوابوں کی تعبیر جانتا ہوں میں
وہ جاں گسل ہی سہی پھر بھی ہے غم جاناں
نہ پوچھیے جو مزہ اس میں پا رہا ہوں میں
ملی بھی چشم حقیقت نگر تو کیا حاصل
زباں پہ لا نہیں سکتا جو دیکھتا ہوں میں