زندگی کا حساب بھی تو ہو
زندگی کا حساب بھی تو ہو
کوئی ایسی کتاب بھی تو ہو
کیا کروں اس کے میں سوالوں کا
معتبر سا جواب بھی تو ہو
جستجو میں ہو جس کی سارا جہاں
وہ حسیں انتخاب بھی تو ہو
اس سے ملنے تو جا رہے ہو مگر
ہاتھ میں اک گلاب بھی تو ہو
سب لٹا دیں گے تیرے کہنے پر
کچھ مجھے دستیاب بھی تو ہو
جس کو پینے سے میں بہک نہ سکوں
ایسی کوئی شراب بھی تو ہو
جس کو دیکھوں تو دیکھتا ہی رہوں
حسن کا وہ شباب بھی تو ہو
ڈوبنے کے لیے ضروری ہے
اس کی آنکھوں میں آب بھی تو ہو
جس کے کھلنے سے علم روشن ہو
عظمتوں کا وہ باب بھی تو ہو
اس کے عیبوں پہ ڈالنے کے لیے
ایک مٹھی ترابؔ بھی تو ہو