زندگی کا ہے یہ بھی کوئی ڈھنگ

زندگی کا ہے یہ بھی کوئی ڈھنگ
نہ کوئی آرزو نہ کوئی امنگ


ہوش کا طور یا خرد کا رنگ
عاشقی کے لئے ہیں دونوں ننگ


عقل حیراں ہے اور فکر ہے دنگ
جلوہ اور وہ بھی سر بہ سر بے رنگ


صلح کل عشق کا ہر اک انداز
حسن کی ہر ادا پیام جنگ


ابھی جیتے ہیں اہرمن زادے
ابھی برپا ہے خیر و شر کی جنگ


اللہ اللہ یہ حسن کا عالم
پھول جیسے کھلے ہوں رنگا رنگ


قہقہے ان کے ساغروں کی کھنک
مسکراہٹ طلوع صبح کا رنگ


کتنی رنگین ہے غزل تیری
بندھ گیا بزم میں جمالیؔ رنگ