وہی سواد حرم ہے وہی ہیں بت خانے

وہی سواد حرم ہے وہی ہیں بت خانے
سنائے جاتے ہیں عنواں بدل کے افسانے


ہنسی خود اپنی اڑا لے رہے ہیں دیوانے
جنوں کی کون سی منزل ہے یہ خدا جانے


مآل شوق سے اہل وفا کو کیا مطلب
بہ جبر عشق کھنچے آ رہے ہیں پروانے


وہ جاں سپاریٔ پروانہ دل گدازیٔ شمع
ہیں شب کو تلخ حقائق سحر کو افسانے


غرور حسن نظر سے مجھے گرا نہ سکا
وفا کی کون سی منزل ہے یہ خدا جانے


جبیں کے ساتھ جمالیؔ کا دل بھی جھکتا ہے
کشش سی حسن بتاں میں ہے کیا خدا جانے