زندگی ہونے کا دکھ سہنے میں ہے
زندگی ہونے کا دکھ سہنے میں ہے
زور دریا کا فقط بہنے میں ہے
رک گئے تو دیکھنے آئیں گے لوگ
عافیت اب گھومتے رہنے میں ہے
کہہ رہے ہیں لوگ اس سے بات کر
جیسے وہ ظالم مرے کہنے میں ہے
چھو لیا تھا درد کی زنجیر کو
وہ بھی اب شامل مرے کہنے میں ہے
عرشؔ وہ اپنی خدائی میں کہاں
بات جو اس کو خدا کہنے میں ہے