زندگی گر دے خدا عالم نیا پیدا کروں

زندگی گر دے خدا عالم نیا پیدا کروں
روز ہو ہو کر فنا رنگ بقا پیدا کروں


جلوہ گاہ ناز میں کیوں کر رہوں ثابت قدم
ہر جفا کا ہے تقاضا اک وفا پیدا کروں


حاصل صد زندگانی اک متاع درد ہے
حضرت ناصح کو یہ ضد ہے دوا پیدا کروں


یاں تو اظہار تمنا واں خموشی کی ادا
مدعا یہ ہے دل بے مدعا پیدا کروں


ایک ہی کا حسن ہے جلوہ نما کونین میں
دوسرا تو جب کہوں جب دوسرا پیدا کروں


چارہ ساز درد دل تو ہی ہے رب بے نیاز
تیرے ہوتے دوسرا کیوں اے خدا پیدا کروں


دل کا ارماں ایک سے ہے ایک بڑھ کر انتخاب
کون سا ہمدم مٹاؤں کون سا پیدا کروں


سر کے دعوے سب مٹا کر دل میں دیکھوں روئے دوست
خود نمائی ہو چکی قبلہ نما پیدا کروں


حسن روز افزوں کی جلوے ہیں غضب کی دل ربا
کس طرح ہر روز حسرتؔ دل نیا پیدا کروں