چشم ساقی کا جو ایما ہو گیا
چشم ساقی کا جو ایما ہو گیا
رند میکش شیخ صنعا ہو گیا
مر گیا میں اب تو ہٹ پوری ہوئی
لو مری جاں اب تو کہنا ہو گیا
ہر گراں جاں کو ہی شوق جنس درد
کس قدر سستا یہ سودا ہو گیا
آفت جاں تیری قہر آلودہ چشم
راحت جاں تیرا ہنسنا ہو گیا
کچھ نہ دیکھی ہم نے تاثیر فغاں
روتے روتے اک زمانہ ہو گیا
آ گئی جب یاد اس بے درد کی
درد سا اک دل میں پیدا ہو گیا
آمد آمد سے مرے سفاک کی
حشر میں اک حشر برپا ہو گیا
دل اڑا کر لے گئی اس کی نظر
وہ پری رو مفت رسوا ہو گیا
دیکھ کر آئینہ وہ بت بن گئے
مجھ سے بڑھ کر ان کو سکتہ ہو گیا
حسرتؔ دیوانہ دل دے کر انہیں
اک زمانے کا تماشا ہو گیا