قطرۂ اشک کا مژگاں پہ مرے یہ عالم
قطرۂ اشک کا مژگاں پہ مرے یہ عالم
صبح دم گھاس کی پتی پہ ہو جیسے شبنم
حسرتیں دل کی نکل جاتیں ذرا تو اے کاش
ایک ہی رات کو مل بیٹھتے ہم تم باہم
سر میں انسان کی منصوبے بھرے تھے کیا کیا
ہائے پر موت نے سب کر دئے درہم برہم
بے نیازی نے کیا خون تمنا کا مری
سینہ میں دل کے تڑپنے سے ہے برپا ماتم
سر سے جاتے رہے اک عمر کے شکوے حسرتؔ
مل کے جب بیٹھ گئے دو گھڑی ہم وہ باہم