زندگی گر دے خدا عالم نیا پیدا کروں
زندگی گر دے خدا عالم نیا پیدا کروں روز ہو ہو کر فنا رنگ بقا پیدا کروں جلوہ گاہ ناز میں کیوں کر رہوں ثابت قدم ہر جفا کا ہے تقاضا اک وفا پیدا کروں حاصل صد زندگانی اک متاع درد ہے حضرت ناصح کو یہ ضد ہے دوا پیدا کروں یاں تو اظہار تمنا واں خموشی کی ادا مدعا یہ ہے دل بے مدعا پیدا ...