زندہ رکھنی ہے مجھے عجز کے معیار کی دھن
زندہ رکھنی ہے مجھے عجز کے معیار کی دھن
ایک سندیسہ ہے یہ حکم سے انکار کی دھن
تو پلٹ آ کہ تجھے میری ضرورت پڑے گی
تجھ کو زندہ نہیں چھوڑے گی یہ بیکار کی دھن
دوست منصور سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی
حق کی آواز پہ ڈٹ جاتے ہوئے دار کی دھن
آپ آتے ہیں چلے جاتے ہیں ملتے ہی نہیں
دل میں رہ جاتی ہے ہر بار ہی اظہار کی دھن
اے خدا اذن ملے تیری طرف آنے کا
کتنی بیتاب ہے اب تیرے گنہ گار کی دھن
شہر چھوڑا ہے ترے عشق کی وحشت کے سبب
جانے لے جائے کہاں اب دل بیمار کی دھن