اس دشت بے اماں میں اترنا مجھے بھی ہے
اس دشت بے اماں میں اترنا مجھے بھی ہے
پاس اس دل حزیں کا تو ورنہ مجھے بھی ہے
دنیا حسین تر ہے مگر اے مرے خدا
بھیجا ہے تو نے اور گزرنا مجھے بھی ہے
فرصت ملی تو ترک کروں گا تعلقات
یہ کام ایک بار تو کرنا مجھے بھی ہے
اس نے بھی ایک آن نظر آنا ہے ضرور
اس بھیڑ میں کہیں سے ابھرنا مجھے بھی ہے
بس سوچتا یہی ہوں میں اعزازؔ کاظمی
جتنا بھی جی لوں آخرش مرنا مجھے بھی ہے