ترے بغیر لگ رہا ہے یہ سفر خموش ہے

ترے بغیر لگ رہا ہے یہ سفر خموش ہے
ہوا تھمی ہوئی ہے اور رہ گزر خموش ہے


ہیں اپنی اپنی جا پہ دونوں مضطرب کہ کیا کریں
تری نگہ میں شور ہے مری نظر خموش ہے


تری صدائیں آ نہیں رہی ہیں اس سکوت میں
کہ ہونٹ ہل رہے ہیں تیرے تو مگر خموش ہے


پکارتا ہوں اپنے آپ کو کہ مر نہ جاؤں میں
مگر پکار پر مری طرح نگر خموش ہے


کوئی تو گنگ رہ گیا کسی کو سانپ ڈس گیا
کہ بام چپ ہے در کھلا پڑا ہے گھر خموش ہے