زیست نفرت میں محبت گھولتی اب کیوں نہیں ہے
زیست نفرت میں محبت گھولتی اب کیوں نہیں ہے
وادیوں میں عشق ہے پھر عاشقی اب کیوں نہیں ہے
ہم چراغ اپنے بجھا کر بعد میں خود پوچھتے ہیں
کیوں اندھیرا ہے یہاں پر روشنی اب کیوں نہیں ہے
چاہ میں مے کی ہوں بھٹکا میکدہ در میکدہ میں
اب ملی ہے مے مجھے تو تشنگی اب کیوں نہیں ہے
قتل ہوتے دیکھتا ہوں روز ہی انسانیت کا
پھر بھی یہ آواز میری ماتمی اب کیوں نہیں ہے
وہ بتاتی تھی مجھے سب راز اس کے بے جھجھک پھر
کیوں خفا خوشبو ہوئی وہ بولتی اب کیوں نہیں ہے
اک اسی امید میں میں چھپ گیا تھا سر خوشی سے
ڈھونڈھ لے گی یہ مجھے پر ڈھونڈھتی اب کیوں نہیں ہے