ذہن پر جب درد خاموشی کی چادر تانتا ہے

ذہن پر جب درد خاموشی کی چادر تانتا ہے
قطرہ قطرہ آنکھ سے لفظ و معانی چھانتا ہے


ہر کس و ناکس کو راس آتی نہیں آوارہ گردی
راستے اس پر ہی کھلتے ہیں جو چلنا جانتا ہے


نقش پارینہ ہٹا کر میں نئے پیکر تراشوں
کوزہ گر کنکر ہٹا کر جیسے مٹی سانتا ہے


وہ ہے دیوانہ اسے گمنامی و تشہیر سے کیا
خامشی سے کر گزرتا ہے جو دل میں ٹھانتا ہے


کور چشمی نے بکھیرا حسن کا شیرازہ ورنہ
اشتہاری جسم بھی پوشیدگی کو مانتا ہے


یہ صلہ بھی کم نہیں عازمؔ تری مشق سخن کا
کوئی غزلوں کے حوالے سے تجھے پہچانتا ہے