میں نے جب حد سے گزرنے کا ارادہ کر لیا

میں نے جب حد سے گزرنے کا ارادہ کر لیا
منزل دشوار کو طے پا پیادہ کر لیا


بے حقیقت ہو گئے میری نظر میں مہر و ماہ
میں نے جب گھر کے دیئے سے استفادہ کر لیا


آنسوؤں نے غم کو عریاں کر دیا ہوتا مگر
دل کی غیرت نے تبسم کو لبادہ کر لیا


امن کی سب شاہراہیں تنگ ہو کر رہ گئیں
حادثوں نے راستہ کتنا کشادہ کر لیا


عمر بھر عازمؔ رہے گا نشۂ غم کا خمار
آنکھ کو پیمانۂ خوں دل کو بادہ کر لیا