آنکھوں میں مری درد کا بادل نہیں دیکھا

آنکھوں میں مری درد کا بادل نہیں دیکھا
صحرا کو کبھی لوگوں نے جل تھل نہیں دیکھا


بچپن سے مرے سر پہ کھڑی دھوپ رہی ہے
میں نے تو کبھی پیار کا آنچل نہیں دیکھا


ہر شخص کے چہرے پہ ہیں الجھن کی لکیریں
اس عہد کے بچوں کو بھی چنچل نہیں دیکھا


بیوی کی محبت ہو کہ یادوں کی رفاقت
مطلب سے تہی میں نے کوئی پل نہیں دیکھا


سچ بول کے نقصان اٹھاتا ہے ہمیشہ
سیفیؔ کی طرح کوئی بھی پاگل نہیں دیکھا