ذرا سی دیر کو آتا ہے لوٹ جاتا ہے

ذرا سی دیر کو آتا ہے لوٹ جاتا ہے
ملن کی آس جگاتا ہے لوٹ جاتا ہے


مریض عشق کو دے کر وہ پیار کا نسخہ
خلش کو اور بڑھاتا ہے لوٹ جاتا ہے


وہ ایک بار بھی سنتا نہیں مری عرضی
بس اپنی بات سناتا ہے لوٹ جاتا ہے


جھگڑ کے نیند میں اکثر وہ بے سبب مجھ کو
درون خواب رلاتا ہے لوٹ جاتا ہے


وہ عشق بن کے اترتا ہے میرے آنگن میں
وفا کے دیپ جلاتا ہے لوٹ جاتا ہے


دم فراق وہ لیتا ہے پیار کی قسمیں
سنہرے خواب دکھاتا ہے لوٹ جاتا ہے


ذکیؔ یہ کون ہے جو روز میری تربت پر
یوں آ کے اشک بہاتا ہے لوٹ جاتا ہے