کل تک جو میرے یار تھا باقی نہیں رہا

کل تک جو میرے یار تھا باقی نہیں رہا
تجھ پر جو اعتبار تھا باقی نہیں رہا


جھٹکا یوں اس نے ہاتھ کہ آنکھیں ہی کھول دیں
برسوں کا جو خمار تھا باقی نہیں رہا


پھر یوں ہوا کہ دونوں کے رستے بدل گئے
دونوں میں جو قرار تھا باقی نہیں رہا


اشکوں کی اک پھوار نے سب کچھ ہی دھو دیا
دل میں جو اک غبار تھا باقی نہیں رہا


سینے پہ کس طبیب نے رکھا ہے اپنا ہاتھ
جو درد بے شمار تھا باقی نہیں رہا


یارا ترے فراق نے سارا چکا دیا
سنگت کا جو ادھار تھا باقی نہیں رہا


اس نے ذکیؔ یوں پیار سے دیکھا کہ پھر مرا
خود پر جو اختیار تھا باقی نہیں رہا