مرے سونے اجڑے دیار میں کبھی دو گھڑی ہی قیام کر

مرے سونے اجڑے دیار میں کبھی دو گھڑی ہی قیام کر
ہو جو دل تو اس میں سکون لے ترا جی کرے تو خرام کر


میں تمام عمر گزار دوں جسے سوچتے جسے چاہتے
تو جو کر سکے مرے ہم نوا تو وہ ایک پل مرے نام کر


مجھے اپنے دل کا وہ راز دے جو خوشی سے مجھ کو نواز دے
وہ جو مجھ میں روح سی پھونک دے کسی روز ایسا کلام کر


مری دھڑکنوں کا یہ سلسلہ ترے پیار سے ہے رواں دواں
تو جو چاہے اس کو دوام دے جو نہیں تو اس کو تمام کر


سر شام مجھ سے تو مل وہاں جہاں عجلتوں کا نہ ہو نشاں
کہیں دور تک یوں ہی ساتھ چل مرا ہاتھ ہاتھ میں تھام کر


تری چاہتوں کا فقیر ہوں مجھے قربتوں کی نیاز دے
ذرا پاس آ کے تو مل مجھے یوں ہی دور سے نہ سلام کر


کوئی کام کرنا ہے گر ذکیؔ تو یہ کام کر مرے دوستا
کہیں نفرتوں کو نہ جا ملے تو محبتوں کو یوں عام کر