ذرا بارش برستی ہے شگوفے جاگ اٹھتے ہیں
ذرا بارش برستی ہے شگوفے جاگ اٹھتے ہیں
کئی رنگوں کی خوشبو سے دریچے جاگ اٹھتے ہیں
ابھی تک پاؤں کی آہٹ سے یا مٹی شناسا ہے
تمہارے ساتھ چلتی ہوں تو رستے جاگ اٹھتے ہیں
کچھ ایسے روشنی دل میں اترتی ہے قرینے سے
بہت امکاں ترے وعدوں کے صدقے جاگ اٹھتے ہیں
کبھی ایسے بھی ہوتا ہے یوں ہی بیٹھے بٹھائے ہی
مری آنکھوں میں دریاؤں کے دھارے جاگ اٹھتے ہیں
ثمینہؔ میں تو لفظوں کو فقط لکھتی ہوں کاغذ پر
تو پھر لفظوں میں یہ کیسے شرارے جاگ اٹھتے ہیں