محبت کا شکستہ پن نظر کیا آئے باہر سے
محبت کا شکستہ پن نظر کیا آئے باہر سے
یہ دیمک تو بدن کو چاٹتی رہتی ہے اندر سے
تمہارے ہجر کا یہ درد سر تو مستقل ٹھہرا
مجھے لگتا ہے جاں لے کے یہ اترے گا میرے سر سے
مری ترتیب میں صحرا مزاجی کار فرما ہے
بجھے گی پیاس کیا میری بھلا اشکوں کے ساگر سے
تیری دہلیز پہ میں منتظر اپنی نہ رہ جاؤں
یہی سب سوچتی ہوں لوٹ آتی ہوں ترے در سے
مری خاموشیوں کو چیخ بننے کا بہت ڈر ہے
کوئی آواز اٹھنے لگ پڑی ہے میرے اندر سے
ثمینہؔ مسئلہ یہ ہے مری قامت سے کمتر ہے
ہمیشہ پیاس پی کر لوٹ آتی ہوں سمندر سے