زمین کی اندرونی ساخت کیسی ہے؟

            سائنس فکشن فلموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مستقبل کے سائنسدان زمین میں ایک ایسا بالکل سیدھا  سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی مدد سے زمین کے دوسری طرف جایا جا سکتا ہے۔ سائنس فکشن کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہونا بہت مشکل بلکہ شاید ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کا اندرون بہت پیچیدہ پرتوں (Layers) اور شدید گرم پگھلے ہوئے مادے پر مشتمل ہے جہاں کا درجہ حرارت7000 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے۔ آئیے آپ کو زمین کے بیرونی اور اندرونی حصو ں کی سیر کراتے ہیں۔ 

          زمین کا بیرونی حصہ  اور براعظمی پلیٹیں

            ماہرین ارضیات نے زمین کو مختلف پرتوں میں تقسیم کیا ہے، جن کی مختلف کیمیائی اور زلزلیاتی خصوصیات ہیں۔ ہم زمین کے جس حصے پر رہتے ہیں، اسے "قشرِ ارض" (crust) کہتے ہیں۔ بظاہر سالم اور ثابت نظر آنے والا یہ قشرِ ارض، دراصل کئی چھوٹی بڑے حصوں میں ٹوٹا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر حصے کو "براعظمی پلیٹ"  یا "ٹیکٹونک پلیٹ" (Tectonic Plate) کہتے ہیں۔ قشرِ ارض لگ بھگ چوبیس چھوٹی بڑی براعظمی پلیٹوں میں ٹوٹا ہوا ہے۔ ان میں سے سات بڑی، چھ درمیانی اور درجن بھر پلیٹیں چھوٹی ہیں۔ 

            قشرِ ارض اور اس کے نیچے موجود مینٹل کا سب سے باہر والا حصہ ایک ساتھ مل کر کسی سخت پرت (rigid layer) کی طرح عمل کرتے ہیں اور انھیں مجموعی طور پر "لیتھو اسفئیر" (lithosphere) یعنی "چٹانی کرہ" کہا جاتا ہے۔ جس کی موٹائی 300 کلومیٹر سے 400 کلومیٹر تک ہوتی ہے۔

            براعظمی پلیٹیں دراصل اسی "لیتھو اسفئیر" کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوتے ہیں جو پگھلے ہوئے مینٹل کے اوپر تیرتے اور سرکتے رہتے ہیں۔ تاہم بر اعظمی پلیٹوں کے حرکت کرنے یا سرکنے کی رفتار بہت سست ہوتی ہے یعنی کوئی ایک پلیٹ ایک سال میں محض 10 ملی میٹر سے 50 میٹر تک ہی اپنی جگہ سے سرکتی ہے۔ انھی پلیٹوں کے حرکت کرنے اور ٹکرانے سے زلزلے آتے ہیں۔

            ماہرین کا خیال ہے کہ تقریباََ 50 کروڑ سال پہلے تک تمام ٹیکٹونک پلیٹیں اکٹھی ملی ہوئی تھیں۔ ان میں آج سے 25 کروڑ سال پہلے علیحدہ ہو کر دور ہونے کا عمل شروع ہوا۔

          زمین کی اندرونی ساخت

            زمین کا بیرونی حصہ تو بہت خوش نما اور معتدل درجہ حرارت کا حامل ہے کہ جہاں ہم زندگی کی رنگا رنگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس کا اندرونی حصہ انتہائی  شدید گرم ہے۔زمین کا رداس (radius) یعنی نصف قطر 6411 کلومیٹر ہے۔یعنی اگر ہم زمین کے اندر عین مرکز تک جانا چاہیں تو ہمیں 6411 کلومیٹر کی گہرائی تک جانا ہو گا۔ زمین کے اوپری خشک حصے یعنی قشر ارض (crust) کی کل موٹائی  صرف 6 سے 40 کلومیٹر تک ہے۔سمندری سطح کے نیچے اس کی موٹائی کم سے کم 6 کلومیٹر تک اور خشکی پر زیادہ سے زیادہ 40 کلومیٹر تک دیکھی گئی ہے۔

             اس کے بعد  ، پگھلی ہوئی چٹانوں پر مشتمل اندرونی علاقہ شروع ہو جاتا ہے  جسے "مینٹل" (mantle) کہا جاتا ہے۔ اس   "مینٹل" (mantle) کی کل موٹائی 2885 کلومیٹر ہے۔تاہم اس مینٹل کی بھی بنیادی طور پر تین پرتیں ہیں۔ پہلی پرت "بالائی مینٹل" (outer mantle) ہے جس کی موٹائی 350 کلومیٹر ہے۔ پہاڑوں سے نکلنے والا پگھلا ہوا لاوا دراصل اسی تہہ سے آتا ہے۔ یہاں کا درجہ حرارت 1000 سینٹی گریڈ تک ہے۔ دوسری پرت "انتقالی پرت" (transition region)  ہے جس کی موٹائی 250 کلومیٹر تک اور تیسری پرت " زیریں مینٹل"     (lower mantle) ہے جس کی موٹائی 2100 کلومیٹر تک ہے۔   یہاں پر درجہ حرارت 3500 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔

             اس کے بعد زمین کا اندرون ،  یعنی شدید گرم لیکن ٹھوس "زمینی قلب" (core) ہے جس کی کل موٹائی 3486 کلومیٹر ہے ۔  تاہم اس زمینی قلب کے بھی دو حصے ہیں: بیرونی قلب (outer core) 2270 کلومیٹر جتنا موٹا ہے جبکہ اندرونی قلب (inner core )کی موٹائی 1216 کلومیٹر تک ہے۔ اس اندرونی قلب کا درجہ حرارت 7000 سینٹی گریڈ  یعنی سورج کی بیرونی سطح کے درجہ حرارت کے برابر  ہے۔ زمین کا اندرونی قلب اور قشرِ ارض ٹھوس ہیں جبکہ بیرونی قلب اور مینٹل کی پرتیں (mantle layers ) مائع حالت میں ہیں۔  

          زمین کا مقناطیسی میدان کیسے پیدا ہوتا ہے؟

            بیرونی قلب اور اندرونی قلب ایک دوسرے کے مخالف سمتوں میں گھومتے ہیں۔ اسی گھمائو کی وجہ سے زمین کا مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے۔اگر کسی وجہ سے یہ گھمائو رک جائے تو زمین کا مقناطیسی میدان متاثر ہو سکتا ہے۔اگر آپ اس تصور کو زیادہ بہتر اور دلچسپ انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو مشہور سائنس فکشن مووی " دی کور" (The Core) دیکھنی چاہئے جس میں زمینی قلب تک پہنچنے کی ایک مہم کو بہت دلچسپ سائنسی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔