زمانے سے بچھڑتے جا رہے ہیں

زمانے سے بچھڑتے جا رہے ہیں
ہم آپس میں جو لڑتے جا رہے ہیں


محبت کی بہاریں کھو گئی ہیں
چمن دل کے اجڑتے جا رہے ہیں


تکبر سے زمیں پر گر پڑیں گے
بلندی پر جو چڑھتے جا رہے ہیں


تعصب کی اگی ہے فصل جب سے
مسائل اور بڑھتے جا رہے ہیں


فسادوں کی ہوا تھمنے لگی ہے
کبوتر لے پکڑتے جا رہے ہیں


خزاں کا دور شاید آ گیا ہے
یہ برگ و گل جو جھڑتے جا رہے ہیں


پرانے پیڑ رہبرؔ آندھیوں میں
زمینوں سے اکھڑتے جا رہے ہیں