ہر سمت خود نمائی کا منظر ہے آج کل
ہر سمت خود نمائی کا منظر ہے آج کل
رہزن بھی اپنے آپ میں رہبر ہے آج کل
جھلسا دیا ہے جیسے زمانے کی دھوپ نے
پیاسا ہے جس کا نام سمندر ہے آج کل
ہر شخص چاہتا ہے ملے مرتبہ مجھے
ہر ایک اندھی سوچ کا خوگر ہے آج کل
عصمت سے کھیلنا یہاں جس کا شعار ہے
سب کی نگاہ میں وہی برتر ہے آج کل
زردار جتنے شہر میں تھے ان کو گھر ملے
گھر اس کو مل نہ پایا جو بے گھر ہے آج کل
جو شخص اپنے دور کا آئینہ دار تھا
افسوس اس کے ہاتھ میں پتھر ہے آج کل
لفظوں میں کس طرح اسے رہبرؔ بیاں کروں
اس دل کے آئینے میں جو منظر ہے آج کل