زمانے بھر میں رسوائی ہوئی ہے

زمانے بھر میں رسوائی ہوئی ہے
بہت اپنی پذیرائی ہوئی ہے


بھلاوا جس کا ہم کو دے رہے ہو
وہ جنت اپنی ٹھکرائی ہوئی ہے


کہے گا کون اس کو مسکراہٹ
جو رخ پر تو نے چپکائی ہوئی ہے


نکالو بھیڑ سے مجھ کو نکالو
وبال جاں یہ تنہائی ہوئی ہے


خدایا پوچھ تو ان رہبروں سے
یہ خلقت کس کی بہکائی ہوئی ہے


صداقت جیت جائے گی یہ مانا
ابھی تو اس کی پسپائی ہوئی ہے


کسی کو دیکھنے کی اف یہ خواہش
کسی کی آنکھ پتھرائی ہوئی ہے