زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں
زمیں سے آسماں تک آ گئے ہیں
چلے ہیں تو کہاں تک آ گئے ہیں
مسافر ان جھمیلوں میں پڑیں کیوں
کہاں سے ہم کہاں تک آ گئے ہیں
نظر کے سامنے وہ آستاں ہے
یقیں والے کہاں تک آ گئے ہیں
ہوئے ہیں بات کرنے پر وہ راضی
زہے قسمت یہاں تک آ گئے ہیں
خرد کی آخری منزل وہی ہے
جنوں والے جہاں تک آ گئے ہیں
ہوئی اک سانس میں طے یہ مسافت
مکاں سے لا مکاں تک آ گئے ہیں
گنوا دی زندگی بھر کی کمائی
گلے نوک زباں تک آ گئے ہیں