زخم سیتے ہوئے مسکراتے ہوئے
زخم سیتے ہوئے مسکراتے ہوئے
سال گزرا ہے ضبط آزماتے ہوئے
اس نے روکا مجھے شہر سے آتے وقت
میں بھی رویا بہت گاؤں جاتے ہوئے
عکس تیرا ہی دیکھا ہے میں نے صنم
آج بھی بال اپنے بناتے ہوئے
اشک بہنے لگے تیز دھڑکن ہوئی
اک غزل میرؔ کی گنگناتے ہوئے
شہر پیارا ہے تم کو کہ تم نے کبھی
کھیت دیکھے نہیں لہلہاتے ہوئے