کون ہے بچ گیا جو الفت سے

کون ہے بچ گیا جو الفت سے
اب خدا ہی بچائے تہمت سے


ہو گئی ہے ہوا بھی زہریلی
لے نہیں سکتے سانس راحت سے


تم مرے سامنے رہو کچھ وقت
آنکھ بھر دیکھ لوں محبت سے


تو مری دلبری بھی دیکھے گا
آ کبھی مجھ کو ملنے فرصت سے


مدتوں ساتھ وہ رہا میرے
کچھ بدلتا نہیں ہے صحبت سے


بانٹتے ہیں محبتیں ہر سمت
اپنی بنتی نہیں عداوت سے


ان سے نسبت رکھا کریں افضلؔ
سنت ملتے ہیں اب غنیمت سے