زباں جب دل جلاتی ہے میں اس سے خار کھاتا ہوں

زباں جب دل جلاتی ہے میں اس سے خار کھاتا ہوں
وہ اکثر جیت جاتی ہے میں اکثر ہار جاتا ہوں


اگر چاہوں گل و بلبل کے جذبے کھینچ کر رکھ دوں
مگر اپنی کمائی کا گدا سچ ہی دکھاتا ہوں


زباں کی مار کھائی ہے جو میں نے یارو مادر کی
شکستہ ہو کہ ان ٹکڑوں کو اب تم پر لٹاتا ہوں


ادیبوں نے مجھے جھاڑا تو پھینکا گو ہوں وہ کیڑا
کہ ان کی کل کتابوں کو میں یوں ہی چاٹ کھاتا ہوں


سلاخیں اور زنجیریں ہیں کیا بے جا مظالم کیا
زباں کی دو سلاخوں میں میں خود کو قید پاتا ہوں


کوئی دیمک لگی لکڑی سی کچھ یادیں سنبھالی تھیں
وہ میرا تن گلاتی تھیں سو خود ان کو گلاتا ہوں


اگر میری تشفی کو دو باتیں یار کی کر دو
زباں کی ہی عنایت ہے کہ خود کو بھول جاتا ہوں


مرے سوکھے سمندر نے جو کچھ نقشے سے کھینچے تھے
جنہیں لہریں مٹاتی تھیں کبھی اب میں مٹاتا ہوں


مری حساس طبیعت کو تو کیا سمجھیں گے میں خود کو
کبھی اشکوں سے منہ دھو کر کبھی ہنس کے چھپاتا ہوں


جو کوڑا دان کو شایاں ہے وہ میری ادیبی ہے
یہ پنی چڑچڑاتی ہے میں جب شمع بڑھاتا ہوں


کبھی سمجھا تھا شاعر ہوں گدا لکھتا تھا میں خود کو
جو مجنوں بن پھرا بن میں وہ بن سے لوٹ آتا ہوں