خوابوں کی چھاؤں میں جو تھا اپنا آشیانہ

خوابوں کی چھاؤں میں جو تھا اپنا آشیانہ
سورج جلا چکا ہے خوابوں کا شامیانہ


پھیلاؤ جو تھا اس کا اسرار آسماں تک
سمٹا کہیں کہیں پر بن راز دائمانہ


اڑتی ہوئی نظر کو ظلمت نے آ کے بھیدا
بے چوک کس قدر تھا صیاد کا نشانہ


ان تلخ حقیقتوں سے نا آگہی ہے بہتر
مدہوشیوں میں جینا بے خود و بے ٹھکانہ


یوں تلخیوں پہ آخر اب آنکھ جو کھلی ہے
خوابوں کی شيرنی بس جینے کا ہے بہانہ


بے خواب میری آنکھیں وہ چیز ڈھونڈھتی ہیں
جس کے طلسم میں ہو خوابوں کا آشیانہ


کب تک بچائے رکھیں دامن کو پاک یوسفؔ
سستی شراب بہت ہے سرمست ہے زمانہ