کیا غضب ہے یہ بلبل اک قہر سا ڈھاتے ہیں

کیا غضب ہے یہ بلبل اک قہر سا ڈھاتے ہیں
ہجر میں وصالوں کے گیت گنگناتے ہیں


ہم نے تیرے بسنے کو دل محل بنایا تھا
اب ویران گھر کے دیوار و در کو ڈھاتے ہیں


بادباں ہمارا جو آندھیوں میں کھلتا ہے
ناخدا سفینے میں غرق خود کو پاتے ہیں


اب کہاں سے دلبر کا میرے دل پہ جلوہ ہو
آئینہ یہ دھندلا ہے عکس کیا دکھاتے ہیں


عمر اک گزر جائے تب کوئی شکایت ہو
صبر کر اے دل میرے دیر سے وہ آتے ہیں


ان کی دل پرستی کب میرے دل کو بھا جاتی
اپنی بے نیازی سے دل مرا لبھاتے ہیں


کیسی یہ غزل خوانی کون ہے سخن آرا
جوش میں گدا کیا کچھ خود سے بدبداتے ہیں