تری میری بات اکثر جو خموشیوں میں ہو گم
تری میری بات اکثر جو خموشیوں میں ہو گم
یہ سکوت ہے کہیں پر کبھی بے زبان ہو تم
کوئی لا زوال رستوں کی لڑی سی زندگی ہے
کوئی راستہ ملے ہے کوئی راستہ جو ہو گم
کیا کہوں کہ بے زباں ہوں پہ کھلی کتاب ہوں میں
مجھے پڑھ سکو تو پڑھ لو جو کبھی مجھے پڑھو تم
یہ اکیلی بات سیکھی ہے ہزاروں محفلوں سے
جوں اکیلی زندگی ہے تو اکیلے ہی رہو تم
کوئی بات کیا کہیں گے جو سمجھ سکو سمجھ لو
مجھے بات کر نہ آئی وہ جو سن سکو سنو تم
کوئی امتحاں ختم ہے کوئی کام پھر شروع ہے
یہ جو فرصتیں ہیں پل بھر کہیں ان میں ہی جیو تم
مری زندگی کی باتیں جو رہین ہیں تمہاری
کیا گداگری ہے میری کیا کشادہ ہاتھ ہو تم